بریکنگ نیوز

ای سی ایل سے نام کیسے نکالا جاتا ہے؟

ای سی ایل کیا ہے؟

وزارت داخلہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ یا ای سی ایل میں ان افراد کے نام شامل کرتی ہے جن کے بارے میں کسی عدالت نے کوئی حکم نامہ جاری کیا ہو یا پھر نیب اور خفیہ اداروں کی طرف سے اس شخص کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کی گئی ہوں۔اگرچہ کسی بھی شخص کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا اختیار ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے پاس ہوتا ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ اختیار وزیر داخلہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

نام ای سی ایل سے کیسے نکالا جاتا ہے؟

سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے دور میں ای سی ایل سے نام نکالنے سے متعلق ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کی سربراہی سیکرٹری داِخلہ کرتے تھے۔اس کمیٹی کا اجلاس ایک مہینے میں دو بار ضرور ہوتا تھا جس میں ای سی ایل میں شامل افراد کے ناموں اور جن وجوہات کی بنا پر ان کا نام ای سی ایل میں شامل ہے اس کے بارے میں غور کیا جاتا تھا۔سابق حکومت کے دور میں اگر کسی شخص کا نام تین سال سے ای سی ایل میں شامل ہے اور اس کے بارے میں کوئی عدالتی حکم بھی سامنے نہیں آیا تو ایسے شخص کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جاتا تھا۔ای سی ایل میں ایسے افراد کے نام بھی شامل تھے جن کے خلاف نہ تو نیب نے اور نہ ہی کسی عدالت نے احکامات جاری کیے ہوتے تھے۔

موجودہ دور میں ای سی ایل کا استعمال؟

وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں ایک شخص کا نام بھی ای سی ایل سے نہیں نکالا گیا اور عدالتی حکم پر محض دو افراد کے نام بلیک لسٹ سے نکالے گئے تھے۔ذرائع کے مطابق ای سی ایل سے متعلق بنائی گئی کمیٹی کا اجلاس بھی باقاعدگی سے نہیں ہو رہا۔پاکستان میں داخلی امور سے متعلق مزید دو فہرستیں شامل ہیں، جن میں سٹاپ لسٹ اور بلیک لسٹ شامل ہیں۔

اسٹاپ لسٹ

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق سٹاپ لسٹ عدالتی فیصلے کی روشنی میں تیار کی جاتی ہے جس میں پولیس اور احتساب کے قومی ادارے نیب کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص ان کو کسی مقدمے میں مطلوب ہوتا ہے اور اس کے بیرون ملک جانے کا خدشہ ہو تو اس کا نام سٹاپ لسٹ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ ا سٹاپ لسٹ پر عمل درآمد پاکستان سے بیرون ملک جانے والے افراد کے لیے ہوتا ہے۔ سٹاپ لسٹ میں کسی کا بھی نام ہو تو وہ صرف 30روز تک رہ سکتا ہے۔اگر کوئی شخص اس مدت کے گزرنے کے باوجود بھی ان اداروں کو مطلوب ہو تو دوبارہ سٹاپ لسٹ میں نام ڈالنے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑتا ہے۔بیرون ملک سے کسی غیر ملکی شخص کو پاکستان میں داخل نہ ہونے سے متعلق اہلکار کا کہنا تھا کہ اس بارے میں کوئی واضح قانون موجود نہیں ہے۔’اگر خفیہ معلومات ہوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شک ہو کہ کوئی شخص پاکستان کے بارے میں منفی خیالات رکھتا ہے اور اس کی سرگرمیوں سے ان خیالات کو تقویت ملتی ہو تو ایسے شخص کے پاس کارآمد ویزہ ہونے کے باوجود اسے پاکستان میں داخل ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔’ریاست کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی غیر ملکی شہری کو ملک میں داخل ہونے سے روک سکتی ہے۔

بلیک لسٹ

بلیک لسٹ میں کسی بھی شخص کا نام شامل کرنے کا اختیار سیکریٹری داخلہ کے پاس ہوتا ہے۔ اس لسٹ میں کسی بھی شخص کا نام ڈالنے کے لیے کسی عدالت کی اجازت لینا ضروری ہے۔’جس شخص کا نام اس لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے اس کے ساتھ اس کے زیر استعمال پاسپورٹ کی تفصیلات بھی دی جاتی ہیں۔‘اہلکار کے مطابق اگر کسی شخص کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہے اور وہ بیرون ملک جانے کی کوشش کرتا ہے تو وہاں پر موجود امیگریشن کے حکام اس شخص کو روکتے ہیں۔’اسے کہا جاتا ہے کہ اس کا نام بلیک لسٹ میں فلاں مقدمے میں شامل ہونے یا اس کی مبینہ طور پر حکومت یا ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے شامل کیا گیا ہے۔‘ اگر کسی شخص پر جو الزامات تھے جس کی وجہ سے اس کا نام بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا تھا وہ ختم ہو جاتے ہیں تو سیکریٹری داخلہ خود ہی اس کا نام اس سٹ سے نکالنے کے مجاز ہیں اور اس کے علاوہ کسی بھی عدالتی حکم پر ایسے شخص کا نام بلیک لسٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔ ایمیگریشن کے حکام کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ ایسے شخص کو گرفتار کر کے متعقلہ حکام کے حوالے کرسکتے ہیں۔

Facebook Comments
Show More

Related Articles

Close