بریکنگ نیوز
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور کرلیا ہے
اکستان کی قومی اسمبلی کے بعد منگل کو سینیٹ نے بھی متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دے دی ہے جبکہ ملک بھر میں اپوزیشن جماعتیں اور صحافتی تنظیمیں اس قانون سازی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے بعد منگل کو سینیٹ نے بھی متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دے دی ہے جبکہ ملک بھر میں اپوزیشن جماعتیں اور صحافتی تنظیمیں اس قانون سازی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔
پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد اب اس بل کو صدر کے پاس بھیجا جائے گا جن کے دستخطوں سے یہ قانون کی شکار اختیار کر لے گا اور فی الفور نافذ العمل ہو گا۔
اس بل کے مطابق جو شخص آن لائن ’فیک نیوز‘ پھیلانے میں ملوث پایا گیا اسے تین سال قید یا 20 لاکھ تک جرمانے یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔
منگل کو جب سینیٹ میں یہ بل پیش کیا گیا تو پی ٹی آئی سمیت حزب مخالف کی جماعتوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے۔اس موقع پر قائد حزب اختلاف شبلی فراز کا کہنا تھا کہ یہ بل ایک سیاسی جماعت کے لیے بنایا گیا ہے اس پر بحث اور مشاورت نہیں ہوئی جبکہ قانون بنانے کے لیے کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔
ادھر حکمراں جماعت نے جمیعت علمائے اسلام ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اس ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’حکومت پیکا ایکٹ کی شق 29 میں ترمیم کرے کیونکہ اس شق میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کے تحت ہونے والے اقدامات کو کسی عدالت یا ایجنسی کے سامنے چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘
پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیری رحمان نے پریس گیلری میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پیپلز پارٹی ہمیشہ میڈیا اور آزادی اظہار رائے کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ میڈیا کا گلہ گھونٹا جائے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں یقین دلایا گیا تھا کہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کی جائے گی۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ ہمیں وہ ملاقاتیں خود کرنی ہوں گی۔‘قومی اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں اور اس کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے پاس کیے جانے والے اِس حکومتی بِل پر نا صرف صحافتی تنظیمیں اور سیاسی جماعتوں کے اراکین بلکہ ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمائندے بھی اپنے سخت تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
جمعرات کی شام جب قومی اسمبلی میں یہ بل پیش ہوا تو اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کیا جبکہ پریس گیلری میں موجود صحافیوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا اور منگل کو سینیٹ کے اجلاس کے دوران بھی صورتحال کچھ ایسی ہی رہی۔
قومی اسمبلی میں ہونے والے ہنگامے کے دوران وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ صحافیوں کے پاس گئے اور دعویٰ کیا کہ ’یہ بِل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں بلکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ہے۔‘
حزب مخالف کی جماعتوں اور پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اس بِل کی منظوری کی سخت مذمت کی ہے جبکہ متعدد صحافتی تنظیموں نے اس ترمیمی بِل کے خلاف احتجاج کا اعلان بھی کیا ہے۔ دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی کا واحد مقصد جھوٹی خبروں کا قلع قمع کرنا ہے نہ کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن۔