دلچسپ و عجیب
سات سیارے ایک ہی صف میں آگئے ، سائنسدانوں حیرت اور تشویش میں مبتلا
فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے افراد فروری میں ایک نایاب نظارے سے لطف اندوز ہو سکیں گے جب نظامِ شمسی کے سات سیارے آسمان میں ایک سیدھی قطار میں آن کھڑے ہوں گے

رواں برس جنوری کے دوران، رات کے وقت آسمان میں چھ سیارے پہلے ہی ایک ساتھ دکھائی دے رہے ہیں جن میں وینس، مریخ، مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون شامل ہیں۔
لیکن 28 فروری کو ایک رات کے لیے سیارہ عطارد (مرکری) بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائے گا اور سات سیاروں کی ایک نایاب قطار دیکھنے کو ملے گی۔ ایسا نظارہ پھر سے 2492 تک دوبارہ رونما نہیں ہوگا۔
ہمارے نظام شمسی کے آٹھ بڑے سیارے سورج کے گرد ایک ہی ہموار سطح پر گردش کرتے ہیں۔ سب مختلف رفتار سے گردش کرتے ہیں۔سورج کے قریب ترین سیارہ عطارد 88 دنوں میں اپنے مدار کا چکر مکمل کرتا ہے۔ زمین کا سال یقینا 365 دن ہے، جبکہ اوپری سرے پر نیپچون کو ہمارے ستارے کا ایک چکر مکمل کرنے میں 60 ہزار 190 دن یا تقریباً 165 سال لگتے ہیں۔
سیاروں کی مختلف رفتار کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات ان میں سے کئی سورج کے ایک ہی طرف قطار میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔
اگر یہ سب اپنے اپنے مدار میں بالکل ٹھیک قطار میں کھڑے ہیں تو ہم زمین سے ایک ہی وقت میں رات کے وقت آسمان میں متعدد سیارے دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن نایاب واقعات کے دوران یہ تمام سیارے اس طرح قطار میں کھڑے ہوتے ہیں کہ وہ سب سورج کی سیدھ میں آسمان میں ایک ساتھ نظر آئیں گے۔
یہ ایک سال کے دوران سورج کے ظاہری راستے پر ایک خیالی لکیر یعنی ’گرہن‘ واضح ہو گی۔
عطارد، زہرہ، مریخ، مشتری اور زحل اتنے روشن ہیں کہ جنوری کی واضح راتوں میں کھلی آنکھ سے دکھائی دے سکتے ہیں۔
یورینس اور نیپچون بھی وہاں موجود ہیں لیکن انھیں دیکھنے کے لیے دوربین یا ٹیلی سکوپ کی ضرورت ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ سیارے بالکل سیدھ میں نہیں ہیں۔ بلکہ وہ نظام شمسی میں اپنے مداروں کی دوری کی وجہ سے آسمان میں ایک قوس کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔
یہ منظر 28 فروری کی رات عطارد کی شمولیت کے بعد ایک عظیم نظارے میں بدل جائے گا جسے زمین سے دیکھا جا سکتا ہے۔
برطانیہ میں ففتھ سٹار لیبز میں سائنس کمیونیکیٹر اور ماہر فلکیات جینیفر ملارڈ نے بی بی سی فیوچر کو بتایا ’اپنی آنکھوں سے سیاروں کو دیکھنے میں کچھ خاص بات ہے۔‘
’اگرچہ ہم گوگل پر جا کر ان تمام سیاروں کا شاندار نظارہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن جب آپ انھیں خود دیکھتے ہیں تو وہ فوٹون ہیں جو آپ کے ریٹیناس تک پہنچنے کے لیے خلا میں لاکھوں یا اربوں کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں۔‘