بلاگ
کیا ہم ذہنی غلام ہیں؟
بنیادی طور پر غلامی کی دو اقسام ہیں۔ایک جسمانی غلامی اور دوسری ذہنی غلامی۔ان دونوں غلامیوں کی بنیاد ی طور پر تین وجوہات ہوتی ہیں،غربت،جنگ اور جہالت۔آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور انسان کی سب سے بڑی قوت اس کی ذہنی و فکری آزادی ہے۔جب انسان ذہنی طور پر آزاد ہو تو وہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کر سکتا ہے اور جسمانی طور پر غلام لیکن ذہنی طور پر آزاد قوم بہت جلد جسمانی آزادی حاصل کر لیتی ہے۔لیکن ذہنی غلامی میں مبتلا قوم آپنے آپ کو غلام ہی نہیں سمجھتی اس لیے آزادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ وہ چشمے ہیں جو ہم نے اپنے اپنے مسالک،اکابرین،جاگیرداروں اور وڈیروں کے نام پر چڑھا رکھے ہیں۔ہمارے ہاں دلائل کی بجائے شخصیات کی بنیاد پر حق و باطل کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ہمدردی کی نسل سے تعلق رکھتی یہ غلامی اْس غلام کی دوہری کمر کی طرح ہے جو پنجرے میں پڑے پڑے ٹیڈی ہو جاتی ہے اور پنجرے سے باہر نکلنے پر بھی ہم آہستہ آہستہ سیدھی ہوتی کمر کو پھر سے ٹیڈھا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم دوہری کمر کے عادی ہو چکے ہیں۔
تقسیم برصغیر پاک و ہند میں ہم نے انگریزوں سے جسمانی آزادی تو حاصل کر لی لیکن ذہنی طور پر ہم اب بھی غلام ہیں۔ہمارے تعلیمی نظام سے لے کر ہمارے رہن سہن،ہماری سوچ سب انگریزوں اور ہندووں کے غلام ہیں۔ہمارے معاشرے میں متعدد گھرانوں کی بیٹیاں صرف اس وجہ سے شادی کے بندھن میں بندھنے سے گریزاں ہے کہ ان کے ماں باپ اْن کے جہیز کا بندوبست نہیں کر پاتے۔یہ لعنت بھی ہماری ثقافت کا حصہ بن چکی ہے جبکہ حقیقی معنوں میں جہیز کی لعنت کا ہمارے دین اور ثقافت سے دور دور تک کا واسطہ نہیں،لیکن کیا کریں صاحب ہم بھی برصغیر پاک و ہند کی سر زمین پر پروان چڑھے ہیں تو پھر ہندووں کی یہ روایات اپنانا ہماری زندگی کا لازمی جزو بن گیا ہے۔
ایک دوسرا پہلو اس نوجوان طبقے کا ہے جو اپنی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیتے کہ ہمیں کس کا غلام بننا ہے،خود کو کتنی قیمت پر بیچنا ہے اور غلامی کا طوق ہمارے گلے میں نہ ڈالا گیا تو پھر اپنی ڈگری،تعلیمی اداروں اور حکومت کو کیسے لعن طعن کرنا ہے یا غلامی نے ہمیں نہ قبول کیا تو ہم موت کو قبول کر لیں گے۔
ہماری عوام،ہمارے حکمران سب ہی انگلش کو اپنی زبان سمجھتے ہیں اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب کوئی اردو میں بات کرے تواْسے جاہل سمجھا جاتا ہے کیونکہ ہم تو ذہنی غلام ہیں۔ذہنی غلامی سے آزادی حاصل کرنا ابھی تک انسانیت کا خواب ہے۔حکومتوں نے اپنی پالیسوں کے ذریعے،بزنس مین نے کاروباری پالیسی کے ذریعے،ذرائع ابلاغ نے ٹی وی ریڈیو اخبارات رسائل اور دیگر ذرائع ابلاغ بشمول انٹرنیٹ کے ذریعے ذہنی غلامی کو نہ نسبت کم کرنے کے اور زیادہ کیا۔انسان کی سوچ،طرز عمل اور انداز کو توڑ مروڑ کر اپنا مطیع کیا گیا ہے۔ایک آزاد انسان جس کی سوچ بھی آزاد ہونی چاہیے مگر اس کی سوچ کو مختلف طریقوں،زاویوں اور حربوں سے قید کیا گیا۔آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے۔آزاد سوچ انسان کا پیدائشی حق ہے۔آزادی کو سمجھیں اور آزادی کی قدر کریں۔اپنے معاشرے کو محکومیت سے نجات دلانے کے لیے ہمت کریں۔جہاں آزادی کو،چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی،خطرے میں دیکھیں تو انسانیت کی خاطر آزادی اور اس کے متوالوں کا بلا جھجک دفاع کریں۔ہمیں احساس کمتری کو ترک کرکے اپنا محاسبہ کرنا ہو گا۔
دوسروں کی بجائے اپنی برائیوں کو دور کر کے زندگی کے داخلی اور خارجی انتشار میں راستے خود تلاش کرنا ہونگے،ہر دلکش اور رجحان بن جانے والی چیز کو اپنی راہ نجات سمجھنے کی بجائے اْس کی حقیقی قدروقیمت معلوم کرنا ہوگی۔ہمیں اپنی افضل ترین امت ہونے اور زرخرید غلام ہونے میں فرق معلوم ہونا چاہیے۔ہم میں اتنی اخلاقی جرا ت ہونی چاہیے کہ جب ہمارے حقوق کی پامالی کی جائے تو اس کے خلاف احتجاجاََ کھڑے ہو سکیں۔