صحافت کے ابتدائی دور میں سیاسی رپورٹنگ کا چسکا لگا، آغاز میں ہی مل گئی تو جی جان سے جت گئے ۔ لاہور کے نیکلسن روڈ پر نوابزادہ نصراللہ خان کے در پر روزانہ حاضری دی جاتی ، اب وہاں پرانے جوتوں کی مارکیٹ بن چکی ہے ۔ نوابزادہ نصراللہ خان کا معمول تھا ، وہ ڈھیر سارے اخبار پڑھتے ، جو صحافی ملنے آتے ،ان سے تازہ ترین خبریں سنتے اور پھر اپنا بیان لکھوا دیتے ۔ ایک روز اپنی باری پر ادب سے بتایا ۔ نواب صاحب !بھارتی ریاست جھارکھنڈ میں کانگریس نے ایک سیاسی اکیڈمی بنائی ہے ۔ جہاں سیاسی کارکنوں کو تربیت کے لیے کورس متعارف کرائے گئے ہیں ۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے ورکر اس اکیڈمی میں تین سے چھ ماہ کا کورس کرسکتے ہیں ۔ جس میں انہیں سیاسی دفتر بنانے اور اس کے انتظامی اور مالی معاملات چلانے کی تربیت دی جائے گی ۔ کارنر میٹنگ ، جلسہ ، جلوس کے انتظامات ، پارٹی کارکن بنانے اور انہیں متحرک کرنے کے طریقے سکھائے جائیں گے ۔تفصیل بتانے کے بعد میں نے اشتیاق سے سوال کیا ۔ نواب صاحب !کیا ہمارے ملک میں جہاں زیادہ تر سیاسی جماعتوں کا انتظامی ڈھانچہ ہوا میں کھڑا ہے ، ایک دو پارٹیوں کو چھوڑ کر پرائمری لیول پر دفاتر موجود نہیں ، سیاسی کارکنوں کی تربیت کے نام پر روایتی انداز میں استادشاگردی ہی چل رہی ہے ۔ ہمارے ملک میں جہاں بار بار آمریت دستک دیتی ہے ، جمہوریت میں بھی من مانیاں کی جاتی ہیں ۔ آپ کے خیال میں بھارت جیسی سیاسی اکیڈمی کی ہمیں زیادہ ضرورت نہیں ؟ جیسے ہی سوال ختم ہوا ۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے حقے کی نڑی سے ایک کش کھینچا اور جوابی سوال داغا ۔ کیا ہم موجود نہیں رہے جو آپ کو اکیڈمی کی ضرورت پڑ گئی ؟
2001ء میں عمران خان سے زمان پارک رہائش گاہ پر انٹرویو کرنے کا موقع ملا ۔ سوال کیا ۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال میں بورڈز آف ڈائریکٹرز بنا کر آپ نے اچھا کیا ۔ یہ ادارہ اب چلتا رہے گا ؟ تحریک انصاف کو اسی انداز میں گلی محلے تک کیوں نہیں لے جاتے ؟ ساتھ ہی یہ بھی شکوہ کردیا ۔ آپ نے کرکٹ کے بعد سماجی خدمت میں نئے رحجان متعارف کرائے ۔ اگر آپ سیاست میں نہ آتے تو اب تک کئی شہروں میں شوکت خانم کینسر ہسپتال بن جاتے ۔ نمل کالج ، یونیورسٹی بن کر مختلف کیمپس کھول چکے ہوتے ؟ سیاست کا جوحال ہے ، اس میں قوم کسی روز خود ہی چل کر حکمرانی کا تاج آپ کے سر پر سجا دیتی ۔ خان صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں سر کو گھمایا اور بولے ۔ مجھے جہاں بھی کہیں سرکاری دفتر میں کام پڑا ، ہرجگہ سیاست اور رشوت نے چکرا کررکھ دیا۔ سوچا ، پہلے اس کرپٹ نظام کو ہی ٹھیک کیا جائے ۔ اقتدار میں آیا جائے اور اداروں کو سیاست اور کرپشن سے پاک کیا جائے ۔ سوال کیا ۔انتخابات میں بدترین ہار کے بعد تحریک انصاف کا ڈھانچہ بکھر چکا ، آپ کا خواب کیسے پورا ہوگا ؟ جواب ملا ۔ میں نے کبھی ہار نہیں مانی ۔ ہار تو واقعی انہوں نے نہیں مانی لیکن ایسی ٹیم بھی نہیں بناپائے جو ان کے قدم سے قدم ملاکر چل سکے ۔ یہی وجہ ہے ،برسہا برس کے بعد اقتدار تو مل گیا مگر جو نعرہ لگایا تھا ،فکر نہ کریں ، اچھا برا ، جو بھی ، جہاں سے بھی آجائے ۔ کپتان ہے ناں ، سب ٹھیک کرلے گا ۔ اب اس کی جگہ سننے کو مل رہا ہے ،آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ،اکیلا کپتان کیا کرے ؟
اداروں کے بغیر چلنے کی روایت صرف ایک شعبے تک محدود نہیں ۔ بیوروکریسی میں بھی ایسے کئی افسر ملیں گے جن کے کریڈٹ پر کئی اچھے منصوبے ملتے ہیں لیکن جب ان کا تبادلہ ہوجاتا ہے تو ترقی کا سارا سفر انہیں کے ساتھ سامان باندھ کر چل پڑتا ہے ۔ پھر بینرز پر یہ لکھا ملتا ہے ۔ تری یاد آئی ترے جانے کے بعد ۔ مشہور بیوروکریٹ کامران لاشاری سے ایک ملاقات میں پوچھ لیا ۔ لاہور ہویا اسلام آباد ، جہاں جاتے ہیں ، ایک جہان آباد کرلیتے ہیں ۔ یکدم سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ کچھ ایسا کیوں نہیں کرلیتے ، آپ کے جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ نہ رکے ؟ ہنس کر بولے ، جو کرنا چاہتا ہے ، وہ خود ہی راستے بنالیتا ہے ؟ شاید یہ بات ہماری قومی نفسیات کا حصہ بن چکی ہے کہ خاندان سے معاشرے تک ہم اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے اچھے نائب تیار نہیں کرتے ۔اب جو بات کروں یہ آپ کو سنی سنائی لگے ۔ عام طور پر بچہ چودہ برس کی عمر تک والدین اور اساتذہ کے باتوں پر کان دھرتا ہے ۔ اس طویل عرصے میں والدین اور اساتذہ چاہیں تو بچے کی ایسی تربیت کرسکتے ہیں ، جس کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ عملی دنیا کے لیے تیار ہوسکے ۔ مشکل حالات اور مکروفریب سے عمدگی سے نمٹ سکے ۔ لیکن ہوتا کیا ہے ؟ بچے کو نازونعم سے پالا جاتا ہے ۔ اسے کام کے بجائے صرف تعلیم پر دھیان دینے کو کہا جاتا ہے ۔ سڑک پار کرنے سے لے کر قریبی دکان پر جانے تک ہرکام سے روکا جاتا ہے ۔یہ کہہ کر کئی والدین کو خوش ہوتے دیکھا ہے ۔ میرا بیٹا تو بالکل بیٹیوں جیسا ہے ۔ خود سوچ لیں ،ایسے میں بیٹیوں کی تربیت کا عالم کیا ہوگا ؟ ایسے والدین کے دنیا سے چلے جانے کے بعد آپ نے اپنے اردگرد کئی بار سنا ہوگا ۔ جب تک امی ابو زندہ تھے ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا ، کسے ملنا ہے ، کیا کرنا ہے ، ان کے بعد تو سمجھ ہی نہیں آرہی ، یہ زندگی کا گورکھ دھندا کیسے چلے گا ؟اسے محبت کا نام دیا جائے یا اپنی اہمیت جتانے کا معاملہ ، اگر والدین بچوں کی معاشرتی رہنمائی بھی کرجاتے تو کیا معاشرہ زیادہ بہتر نہ ہوجاتا ؟
گھر سے دفتر تک ، اپوزیشن سے حکومت تک ۔ اپنے وطن عزیز میں جہاں بھی نظر دوڑائیں ، ادارے نہیں افراد ہی نظر آتے ہیں ۔ یہ افراد اپنے پسندیدہ لوگوں کو میرٹ کی دھجیاں اڑا کر عہدے دلاتے ہیں ۔ عہدے دینے کے قوانین میں ایسا خلا رکھتے ہیں کہ جہاں چاہیں من مانی کرلیں ۔زور آور ہو تو خود ایکسٹینشن لے لے ، نہیں تو لابنگ کرے اور ملازمت میں توسیع لے لے ۔ اگر پہلے کم گریڈ کے افسران کو بڑے گریڈ پر بٹھا کر مرضی کے کام لیے جاتے تھے تو اب غیر منتخب افراد کو منتخب افراد پر ترجیح دی جارہی ہے ۔ اداروں کو لاوارث چھوڑ کر پہلے والوں نے کمپنیاں بنائیں تو اب والے بھی کون سا ادارے بنانے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں ۔ جب تک میں ہوں ، فکر کاہے کی ۔ اپنے ناگزیر ہونے کے زعم میں یہ تکرار ہرجگہ سنائی دے رہی ہے ۔
اتنا جان لیں ، آپ کا خاندان ہو یا پورا پاکستان ، جہاں ادارے نہیں بنتے ، وہاں افراد من مانی کرتے ہیں ۔ادارے نہ بنانا حکمران ، افسران اور مخصوص ٹولے کے مفاد میں ہوتا ہے اور ادارے بنانا عوام کے مفاد میں ۔ اہل سیاست جان پائیں تو جان لیں ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن میں اداروں کی بات کرنے والے حکومت میں آکر بھول جاتے ہیں کہ عوام نے انہیں اپنی ترجمانی کے لیے بھیجا تھا ،خرابی کی جڑ بیوروکریسی کی سمریاں سن کر الٹا عوام کو کم عقل سمجھنے ، کرپٹ یا ٹیکس چور کہنے کے لیے نہیں ۔آخری بات بس اتنی کہ افراد کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن نتیجہ خیز تبدیلی ادارے ہی لاتے ہیں ۔
ملا ہے تخت کسے کون تخت پر نہ رہا
یہ بات اور ہے جاری تھا جو سفر نہ رہا
Facebook Comments