بلاگ
خودکشی حل نہیں مسائل کا!
چند سانسیں ہزار نعمت ہیں
میں بھی قائل ہوں ان دلائل کا
زندگی لاکھ مشکل سہی مگر
خودکشی حل نہیں مسائل کا
ہمارے ہاں آئے دن کسی نہ کسی نے خود کو گلے میں رسی ڈال کر پنکھے سے لٹک کر موت کے منہ میں اتار لیا ہوتا ہے، ہمارے ملک میں حالات بھی ایسے ہیں کہ غریب کہاں جائے کھانے کو کچھ ملتا نہیں، رہنے کے لیے جگہ نہیں وہ اپنے گھر کے 10 افراد کو لے کر کہاں جائے وہ نادان اور مایوس شخص اپنے آپ کو ان سب مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے خودکشی جیسی حرام موت کو گلے لگا لیتا ہے. انسان خودکشی تب ہی کرتا ہے جب وہ مایوس ہو جاتا ہے لیکن اسلام میں مایوسی گناہ ہے اور خودکشی حرام، لیکن اس شخص کی موت کے ذمہ دار کسی حد تک یہ معاشرہ بھی ہے، اگر کسی کو کوئی مسئلہ ہے تو اس پاس کے لوگ اس بھائی کی مدد کریں اسے سنیں.لیکن اب یہ خودکشی کی بیماری نوجوانوں میں روزبروز بڑھتی جا رہی ہے. پچھلے دنوں رمضان میں نمل یونیورسٹی کا ایک سٹوڈنٹ ساغر جو کہ ماس کمیونیکیشن کا سٹوڈنٹ تھا اس نے خودکشی کر لی. پھر دو دن پہلے منہاج یونیورسٹی کا ایک سٹوڈنٹ زین عباس جو کہ ایک بہترین نوجوان شاعر تھا گلے میں رسی ڈال کر ہوسٹل کے پنکھے سے خودکشی کر لی، زین عباس ادب کے میدان میں ایک انقلابی شاعر کی حیثیت رکھتا تھا، ساغر نے بھی مرنے سے پہلے ایک خط لکھا تھا جس نے مجھے رولا دیا اور زین عباس نے بھی مرنے سے پہلے اپنے ہوسٹل کے کمرے کے دروازے پر لکھا تھا "زین بس اب کی آخری شب ہے”. اس کی شاعری سے ہی اشارہ ملتا تھا کہ قدرے مایوس ہے
روز اس دل کے کئی تار بدل جاتے ہیں
وقت پڑنے پہ مرے یار بدل جاتے ہیں
جب بھی ہم لوٹ کے آتے ہیں گھروں کو اپنے
یہ گلی اور یہ بازار بدل جاتے ہیں
اب بھی طاقت کے توازن کو بگڑتا پا کر
دن نکلتا ہے تو اخبار بدل جاتے ہیں
ایک مجبور کی بازار میں قیمت کیا ہے
رات کے ساتھ خریدار بدل جاتے ہیں
اک کہانی ہے ازل سے جو چلی آتی ہے
بس کہانی کے یہ کردار بدل جاتے ہیں
یاں اس طور بدلتے ہیں زمانے والے
جیسے کوفے میں طرفدار بدل جاتے ہیں
کبھی کبھی ایک شخص صرف ہمدرد کان چاہتا ہے. وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ کوئی اس سے بات کرے. ہمیں صرف چند دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے الفاظ کے اظہار سے پہلے ہمیں سمجھ جائیں. ہمیں نہیں پتا کون کیسی جنگ لڑ رہا ہے. بے رحم معاشرے میں کس کو کس دکھ کی دیمک چاٹ رہی ہے. وہ بس یہ چاہتا ہے کہ اسے بنا ٹوکے سنا جائے.
ان کی خودکشی کے بعد لوگ حسبِ معمول پوسٹس کرنے لگ پڑتے ہیں کہ بہت جلدی چلے گئے ہو، کچھ نے کہا کہ کاش میرے دوست آپ مجھے اپنا مسئلہ بتا دیتے تو ایسا کرنے کی نوبت نہیں آتی وغیرہ وغیرہ.
آپ دیکھیں کہ یہ حد درجہ فنکارانہ اور منافقانہ طرزءعمل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک دوست کو کبھی بھی یہ ضرورت پیش نہیں آتی کہ اگلا اس کو خود اپنا مسئلہ بتائے۔ دوست تو ہوتا ہی وہی ہے جس کو ایک منٹ میں اندازہ ہوجائے کہ اگلا کس پریشانی کا شکار ہے۔
یہ خودکشیاں اچانک سے کوئی نہیں کرتا بھئی۔ مہینوں سالوں تک وہ بندہ اپنے ہی اندر حالات سے اکیلا لڑتے لڑتے تھک جاتا ہے اور جب باہر سے بھی کوئی اس کی مدد کو آگے نہیں آتا ، تو تب جاکے وہ خودکشی کا سوچنے لگتا ہے۔ جب وہ ہر طرح سے مایوس ہو جاتا ہے ، امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی تو تب جا کے وہ زندگی کا چراغ گل کرنے کی سوچتا ہے۔
عام طور پہ جب ہمیں کوئی ہلکا سا کانٹا بھی چبھ جائے تو کس قدر تکلیف ہوتی ہے۔ یعنی انسان چھوٹی سی جسمانی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتا تو پھر خود اپنی جان لینے جیسا تکلیف دہ راستہ کوئی خوشی سے کیسے اختیار کرسکتا ہے۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان عام تکلیف سے ہزار گناہ زیادہ تکلیف اپنے اندر سہہ رہا ہوتا ہے اور جب اسکی برداشت ختم ہوجاتی ہے تو تب اس کو ایک ہی حل نظر آتا ہے۔
ہمارے آس پاس نجانے کتنے زین عباس آہستہ آہستہ خودکشی کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن کوئی بھی ان کی زندگی کا سہارا بن کر ان کی زندگی بچانے کا نہیں سوچ رہا۔ سب کو اپنی پڑی ہے۔ سب اپنی ذات کے پجاری اپنی ہی دنیا مے مگن ہیں۔ ہاں جیسے ہی یہ خبر آئے گی کہ فلاں اب نہیں رہا تو فیسبک پہ رونے والے قطار در قطار ماتم کرتے نظر آئیں گے۔ لیکن آج تک کبھی کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ مرحوم کے غم میں رو رہے ہیں یا اس کی خودکشی کے جرم میں جو آپ کا کردار ہے اس پہ ماتم کناں ہیں؟
خودکشی ایک انفرادی جرم نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔ اور اس جرم میں خودکشی کرنے والے شخص کے آس پاس موجود سارے لوگ کسی نا کسی طور ملوث ہوتے ہیں۔
خدارا زندہ لوگوں کی قدر کریں اور اگر کوئی شخص آپ کو پریشان نظر آئے تو اس کو وقت دینا اپنا فرض سمجھیں۔ آپ کا وقت کسی کی زندگی سے زیادہ قیمتی تو ہرگز نہیں۔ کل کو خدانخواستہ ایسے حالات کا سامنا آپ کو بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ آج آپ کسی کو بچائیں گے تو کل کوئی آپ کو بھی بچانے آئے گا۔
دوسروں کو یہ باور کرانا آپ کا فرض ہے کہ زندگی کس قدر خوبصورت اور قیمتی ہے۔ اور جس چیز کو ہمارے اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس سے بچنے میں ہی دنیا آخرت دونوں کی بھلائی ہے۔
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
یہ بانکپن تھا ہمارا کہ ظلم پر ہم نے
بجائے نالہ و فریاد شاعری کی ہے
اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کا خیال رکھیں۔ اور اللہ مرحومین کی مغفرت کرے۔
آمین