لاہور کے غم لندن ساتھ لے کر نہ آنا ۔ پیارے دوست مبین چودھری نے روانگی سے پہلے ہی حکم صادر کردیا تھا لیکن لندن پہنچتے ہی وہاں کے صحافیوں اور سیاسی رہنماؤں نے وقفے وقفے سے یوں گھیرا کہ برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی کی کھینچا تانی سے جان چھوٹ پائی نہ پاکستان کی سیاست سے نکل پائے ۔جہاں بھی مل بیٹھے وہاں شریف خاندان کے سیاسی مستقبل کی بات تو لازمی سامنے آتی ۔ ہم الٹا ان سے سوال داغ دیتے ، آدھا شریف خاندان لندن میں رہتا ہے ، آپ بتائیں ، انہیں کب تک واپس بھجوا رہے ہیں ؟ بات بدل ضرور جاتی لیکن موضوع سیاست ہی رہتا ۔ دوسرا سوال وہی جو اوورسیز پاکستانی کیے بغیر رہ ہی نہیں پاتے ۔ پاکستان کا کیا بنے گا ؟ کب نظام ٹھیک ہوگا ؟ کب دکھ کم ہوں گے ؟ ہمارے دیس میں سب کچھ ہے ، بس انصاف نہیں ، قانون کی حکمرانی نہیں ، یہ ہوجائے تو ہمارے وطن جیسا دنیا میں کوئی اور نہیں ؟ بے تکلفی میں ایک بار کہہ ہی دیا ۔ آپ لوگ جسے چھوڑ آئے ہیں ۔ وہ مرے یا جیئے ، آپ کو کیا ؟ جواب میں محبت اور دکھوں کی طویل داستان سنائی جاتی تب سمجھ آئی ۔ملن سے زیادہ وچھوڑاقدر رکھتا ہے ۔ واقعی دور جاکر ہی اپنوں کی قدر کا اندازہ ہوتا ہے ۔ یہ الگ بات ،ہمارے یہ پیارے لوگ پاکستان سے محبت جتنی مرضی جتائیں لیکن واپس آنے کا سنتے ہی سو عذر تراشنے لگتے ہیں ۔ایک عذر تو عام ہے ۔ بچے اب یہیں پلے بڑھے ، وہ واپس جانے کو نہیں مانتے ، ہم تو کب سے ٹکٹ کٹائے بیٹھے ہیں ۔
لندن کی ہرمحفل میں کہیں نہ کہیں سے ڈیم فنڈ کے لیے کی گئی چیرٹی تقریبات کا ذکر بھی ضرور آیا ۔ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار ان تقریبات کے مہمان خصوصی بنے ۔ لندن والے پوچھتے ہیں ۔ ڈیم فنڈز کے لیے کیے جانے والے چار چیرٹی پروگراموں میں سے تین مختلف این جی اوز کے ذریعے کرائے گئے ۔ ان تقریبات میں پاکستانیوں نے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا لیکن کئی ماہ گزرچکے ۔ منتظمین بتانے کو تیار نہیں کہ کتنی رقم اکھٹی ہوئی ۔ کتنی رقم ڈیم فنڈ میں جمع کرائی گئی ۔ یہ سوال بھی پوچھا جارہا ہے ۔ جب پاکستانی کمیونٹی سے ہی چندہ لیاجانا تھا تو پھر کسی این جی او کو تقریب کرانے کا ٹھیکہ کیوں دیا گیا ؟ جبکہ برطانوی قانون این جی اوز کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ جمع کی گئی رقوم میں سے 30 فیصد رقم رکھ سکتی ہے ۔ اب یہ پوچھنا بھی تو بنتا ہے کہ این جی اوز نے کتنی رقم اپنی خدمات کے عوض خود رکھی ، کتنی جمع کرائی ؟ برطانیہ کی پاکستانی کمیونٹی کے ان سوالوں کا جواب کوئی دینے کو تیا ر نہیں ۔ حتی کہ جنوبی انگلستان میں تحریک انصاف کے سابق صدر رومی ملک بھی یہی سوال اٹھاتے ہوئے جذباتی ہوجاتے ہیں ۔ رومی ملک وہ ہیں جنہوں نے ڈیم فنڈ کے لیے رشتے داروں اور دوست احباب کا جینا حرام کردیا ۔ ان سے جاجا کر رقم اکھٹی کی اور خود ڈیم فنڈز میں جمع کرائی ۔ چیرٹی تقریبات میں وہ بھی شریک ہوئے لیکن کتنی رقم جمع ہوئی ، اس کا جواب انہیں بھی نہیں ملا ۔ ہم نے وفاقی وزیر فیصل ووڈا کا بیان یاد دلایا کہ ڈیم فنڈ کے لیے براہ راست اکاؤنٹ میں رقم جمع کرائیں کسی کو نقدرقم نہ دیں ۔ اب جنہوں نے نقد رقم دی ہے بہتر یہی ہے وہ اسے نیکی سمجھ کر ‘ڈیم ‘ میں ڈال لیں ۔
لندن میں ایک ناہید رندھاوا بھی ملے ، نرم مزاج ، نرم گفتار اور یاروں کے یار ۔یوکے پاکستان چیمبر آف کامرس کے سابق صدر ۔ ان سے مل کر لاہور کے اپنے محترم دوست اور شیخوپورہ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر منظور ملک یاد آگئے ۔ پاکستان کی محبت میں گندھے ہوئے ، صحافیوں کے پسندیدہ غیر صحافی دوست ، جنہیں خبر چھپوانے سے غرض ہے نہ خبر بننے سے ۔ بس دوستی میں خوشی کشید کرتے ہیں اور شاد رہتے ہیں ۔ ناہید رندھاوا بھی ایسے ہی لگے ۔ چھ لوگوں نے خوب نشست جمائی ، ایک بات بھی مایوسی کی سامنے نہ آئی ۔ کاش ہم سب مسائل سے الگ ہوکر حل کے ساتھ جڑ جائیں کیونکہ ایک سی باتیں ہربار دہرا دینے سے ہونا ہوانا کچھ نہیں ۔
لوٹن میں سینئر صحافی شیراز خان نے دوستوں کی محفل چودھری امین پوٹھی کے گھر میں سجائی ۔ وہاں آزاد کشمیر کی سیاست کا ذکر چلا تو کچھ دیر کے بعد انہیں یاد دلانا پڑا ، آپ کشمیریوں کو بتادیں ہم پاکستان سے آئے ہیں ۔ جواب ملا ، وہاں آپ ہماری نہیں سنتے ، اب یہاں آپ ہماری سنیں ۔ ایسی بات قہقہہ میں اڑانا ہی بنتی تھی ، سو ہم نے بھی اسے ہنسی میں اڑا دیا ۔ باضابطہ گفتگو چلی تو معروف بزنس مین چودھری عبدالعزیز نے درد مندی سے خواہش ظاہر کی ، وہ چاہتے ہیں ، کوئی ایسا میکنزم بنایا جائے کہ اوورسیز پاکستانی اپنے وطن میں سرمایہ کاری کریں اور انہیں بھی غیر ملکی سرمایہ کار جیسی سہولتیں اور عزت دی جائے ۔ بات معقول تھی، محفل میں سبھی نے اس کی تائید کی ۔ محفل کے میزبان چودھری امین پوٹھی نے اعلان کیا کہ وہ حلقہ چار کھڑی شریف میرپور سے تحریک انصاف کی جانب سے آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے ۔ اس پر تالیاں بجیں لیکن میرے کان میں ایک آواز آئی ، دہری شہریت رکھنے والوں کے سب کو نوٹ چاہیے ، ووٹ نہیں ، جب ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں تو الیکشن لڑنے کی کیا خاک ملے گی ۔
ہمیں بات کرنے کی اجازت ملی تو لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیا ، ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری منافقت ہے ۔ ہم سب کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں لیکن خود کو بدلنے کو تیار نہیں ۔سب چاہتے ہیں ، پہلے سب ٹھیک ہوں ، آخر میں قانون ہم پر لاگو کیا جائے ۔ آپ پردیسیوں سے امید تھی ، ان ترقی یافتہ دیسوں سےکچھ سیکھ کر آئیں گے اور تبدیلی لائیں گے لیکن اس سے پہلے جو نشست ہوئی تویہی سننے کو ملا ، پاکستان ہویا آزادکشمیر ہرجگہ تھانہ ، کچہری اور برادری کی سیاست چلتی ہے ۔ نالیاں اور گلیاں پکی کرادو ، کافی ہے ۔ مجھے کہہ لینے دیں ، اوورسیز سے آکر بھی اگر پاکستان میں آپ نے تھانہ ، کچہری ، گلی محلے ، برادری کی سیاست کو ہی فروغ دینا ہے تو مت آئیں یہ کام تو جیسے تیسے ہم پہلے ہی کررہے ہیں ۔
لندن میں قیام کے دوران ہی برطانیہ میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ۔ جمہوریت کی ماں کہلانے والے ملک میں بلدیاتی انتخابات کو بڑھی اہمیت دی جاتی ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ بلدیاتی نظام ہی جمہوریت کی بنیاد ہے ۔بلدیاتی اداروں کو ملے اختیارات ہی لوگوں کی زندگی میں آسانیاں لاتے ہیں ۔ دل چاہا کوئی اپنے دیس کے منتخب نمائندوں کو بھی یہ بات سمجھا دے جواختیار چھوڑنے کو تیار نہیں ۔نہیں تو ایک کندھے پر اپنے پسندیدہ سیاستدان کی تصویر اور دوسرے کندھے پر مسائل کی صلیب اٹھانے والے ہی جان لیں ، کوئی بھی سیاستدان اقتدار میں آجائے جب تک بلدیاتی ادارے بااختیار نہیں ہوں گے ۔ تب تک روٹی ، کپڑا اور مکان بھول جائیں
Facebook Comments