بریڈ فورڈ کی جانب بڑھتی گاڑی کے باہر منظر تیزی سے پیچھے کو بھاگ رہے ہیں اور اندر مکمل خاموشی ہے ۔ میں بھی چاہ رہا ہوں ، تایا زاد اپنی مرضی سے بات کو آگے بڑھائیں ۔زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا ، افضل شریف اپنے دل میں لکھی کتاب کے ورق پلٹنے لگے ۔”اس وقت امت مسلمہ کے ذہین افراد کے ذہن اوروں کے کام آرہے ہیں ۔ صرف 50 ہزار کے قریب افراد نے ڈیڑھ ارب سے بڑھی امت مسلمہ کو یرغمال بنارکھا ہے ۔ مکار ، عیار ، ریاکار ،لالچی ، کرپٹ اور احساس کمتری کے مارے یہی لوگ ہیں جو اغیار کے ساتھ مل کر پوری امت کو اٹھنے نہیں دے رہے ۔ ترقی یافتہ ہونے کے لیے جو تین چیزیں درکار ہوتی ہیں ۔ وہ تینوں مسلمان ممالک کے پاس ہیں ۔ ترقی کے لیے وسائل ، افرادی قوت اور ٹیکنالوجی چاہیے ، وسائل اور افرادی قوت ڈھیروں ڈھیر ہمارے پاس ہے ، رہی ٹیکنالوجی تو اس کے لیے ہمیں نیا لائحہ عمل بنانا پڑے گا۔ صدیوں تک ہم نے جنگیں لڑلیں ، نتیجہ یہ نکلا کہ حالات پہلے سے زیادہ ابتر ہوگئے ہیں ۔ پستی کا سفر رکنے میں نہیں آرہا ۔کاروبار ی دنیا میں ہم نے سیکھا ہے ، ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے ایک پلان نتائج نہ دے تو اسے فوری بدل دیں اور نیا لائحہ عمل تیار کریں ، اپنے حالات بدلنے کے لیے بھی اب ہمیں یہی کرنا ہوگا ۔ "یہ کہہ کر چپکے سے خاموشی پھر گاڑی میں آگئی ۔ لگا جیسے وہ اپنے خیالات کو مجتمع کررہے ہیں ۔ اسٹیرنگ پر ہاتھوں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے دوبارہ گویا ہوئے ۔
"اس بھنور سے نکلنے کے لیے ہمیں ایک ایسی تنظیم بناناہوگی جس کے ذریعے تمام مسلم ممالک سے ہرسال سو ذہین طلبا کو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سکالر شپس دے کر تعلیم دلائی جائے ۔ ان کے تمام اخراجات تنظیم اٹھائے اور طالب علموں کے ساتھ معاہدے میں صرف ایک شرط رکھی جائے ۔ وہ دس سال کے لیے کسی بھی مسلمان نے ملک میں جاکر خدمات دیں گے ۔یہ تنظیم اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ پہلے سے تیار افراد جو مغربی ممالک میں کام کررہے ہیں ، ان کی مسلم ممالک میں واپسی کی راہ ہموار کی جائے ۔ یہ تنظیم کیسے بنائی جائے ؟ طلبا کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہوگا ؟ وسائل کی فراہمی کیسے یقینی بنائی جائے گی ؟ یہ ایسے معاملات ہیں ، جن کے لیے جزوقتی کام کافی نہیں ۔ مجھے لگتا ہے ، میں اپنا بہترین دماغ اور وقت اپنے کاروبار کو دے رہا ہوں اور بچا کچا وقت ، تھکا ہارا دماغ اپنے رب کو ۔ اب مجھے یہ منظور نہیں ، یہی سوچ مجھے کہہ رہی ہے ۔ کاروبار بہت ہوچکا ، اس کوٹیم کے حوالے کرکے بس سپروائز کرو اور ساراوقت اپنے خواب کو دے دو ۔ ”
افضل شریف بول چکے ، اب میری بات تھی ۔ ان کی خواہش اور کوشش کو سراہتے ہوئے بتایا ۔ بڑے بھائی !آپ کا خیال عمدہ سہی لیکن نیا نہیں ۔ 70ء کی دہائی میں تنظیم عالمی اسلامی (او آئی سی )بھی ایسی ہی سوچ نے بنائی تھی ۔ اس کے ایجنڈے میں مسلم دنیا کا میڈیا نیٹ ورک ، ذہین طلبا کے لیے سکالر شپس سمیت ایسے کئی منصوبے شامل تھے ۔ اب آپ او آئی سی کو اس کی خراب کارکردگی کی وجہ سے سفید ہاتھی کہیں یا اوہ آئی سی ۔ خیال تو موجود ہے ، آپ چاہیں تو نئے سرے سے ہرشے پر کام کرنے کے بجائے ، او آئی سی کے بنیادی ڈھانچے کو دیکھ لیں ۔ ہوسکتا ہے آپ کو ابتدا اچھی مل جائے ۔ میری بات کو افضل شریف نے حوصلے سے سنا اور ہمارے درمیان چھوٹے چھوٹے سوال جواب شروع ہوگئے ۔ مجھے لاہور میں افضل شریف کی دس سال پہلے کی ملاقات یاد آگئی ۔ جب گھر آمد پر انہوں نے مجھ سے کام کے بارے میں پوچھا ۔ میں نے خوشی سے دبئی کے اخبار سے وابستگی ، چھ ہندسوں والی تنخواہ اور دوسری مراعات بتائیں ۔ جواب میں وہ اتنا بولے ۔ یاد رکھنا !زندگی یہاں سے شروع ہوتی ہے ، ختم نہیں ۔ افضل شریف کی یہ بات مجھے تب سمجھ نہ آئی ۔ سال گزرتے رہے تو گتھی سلجھنے لگی کہ جب آپ روٹی ، کپڑا اور مکان کے گھن چکر سے نکل جاتے ہیں تو یہ بہترین وقت ہے جب وہ کام کرو ، جو آنکھوں میں سراب بن کر رہ جاتے ہیں ۔ مجھے لگا ، افضل شریف پر بھی وہی وقت آگیا ہے ۔ وہ گھن چکر سے نکل کر صراط مستقیم پر چلنے کی تیاری پکڑ چکا ہے ۔ بس خواب دیوانے جیسا ہے ۔
افضل شریف نے بتایا ، اپنے خواب کی تکمیل کے لیے وہ خیال سے عمل کا سفر طے کرچکے ہیں ۔ میں نےبھی اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ۔ کب سے پاکستان میں فلاح کا کام کرنے والوں سے کہہ رہا ہوں ۔ یتیم اور مسکین کا ضرور خیال رکھو کہ رب کا حکم ہے لیکن ذہین کوبھی عزت دو ۔مشنری اسکولوں سے ہی کچھ سیکھ لو ۔ وہ لوئر اور مڈل کلاس کےبچوں کو سستی تعلیم دیتے ہیں ۔ مسکین کو وظیفہ ملتا ہے تاکہ وہ تعلیم جاری رکھ سکے اور ذہین کو سکالر شپ ملتا ہے تاکہ وہ زیادہ محنت سے اپنی تعلیم پر توجہ دے ۔ اپنے والدین کا فخر بنے اور ذہانت کہیں والدین کی مالی مجبوری کی وجہ سے رائیگاں نہ چلی جائے ۔ کیونکہ جانتا ہوں ۔ معاشرے کے اصل فیبرک مڈل کلا س کی آدھی سے زیادہ آمدن فیسوں کی نذر ہورہی ہے اور ذہانت صرف اچھی نوکری کی تلاش میں صرف ہورہی ہے ۔ دونوں بھائی ہم خیال ٹھہرے تو تجویز دی ۔ دنیا میں بلاسود قرض کی سب سے بڑی تنظیم چلانے والے ڈاکٹر امجد ثاقب کا نیا پروگرام بھی آپ کے خواب سے تال میل کھاتا ہے ۔ افضل شریف نے دلچسپی سے میری طرف دیکھا ۔بتایا ، ڈاکٹر امجد ثاقب نے اخوت کالج ویونیورسٹی کی بنیاد رکھی ہے ۔ جہاں فیس نہیں ذہانت کو معیار رکھا جائے گا ۔ جو جتنی فیس دینے کی سکت رکھتا ہے ، وہ اتنی دے گا ۔ آغاز میں اس یونیورسٹی کو مخیر حضرات چلائیں گے اور ڈاکٹر امجد ثاقب کا خواب ہے کہ پھر یہاں سے فارغ التحصیل طلبا خود ہی یہ ذمہ داری نبھائیں گے ، جیسے بلاسود قرض لینے والےاب اخوت کو عطیہ دینے والے بن چکے ہیں ۔ آپ عید کے بعد لاہور آرہے ہیں تو ڈاکٹر امجد ثاقب سے ملاقات رکھتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے ، آپ کو اپنے خواب کی تعبیرکا راستہ مل جائے ۔
افضل شریف نے سیٹ پر پہلو بدلتے ہوئے کہا ، "ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان جیسے کئی لوگ بہت اچھا کام کررہے ہیں لیکن اس سےحیران کن نتائج بھی سامنے آنے میں ابھی اک مدت لگے گی ۔ ایسے کام حکومتی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پہلے ہی سال سے نتائج سامنے آنے لگیں ۔ آغاز میں وسائل نہ بھی دیں تو مسلمان ممالک میں ایسا ماحول ہی بنایا جائے تاکہ مغربی ممالک سے تیار لوگ باآسانی واپسی کا فیصلے پر عملدرآمد کرسکیں ۔ پھرکہوں گا ، دولت ہے ، افرادی قوت ہے ، ذہانت کی کمی نہیں ، بس ایماندار لیڈرشپ مل جائے تو ہر مشکل دور ہوسکتی ہے "۔ میرا جانے کیوں یہ کہنے کو دل چاہا ،پر کہہ نہ پایا ۔ بڑے بھائی !بہترین کی تلاش میں بہتر کو چھوڑدینا عقلمندی نہیں ۔ ہمارے حصے میں کوشش کرنا ہے اور یہ سفر خود سے ہی شروع ہوتا ہے ۔ مسلم ممالک کا اصل لفڑا ہی ایماندار قیادت کا ہے ۔ ایک نجات دہندہ کی تلاش میں ہم کہاں کہاں نہیں لٹے ، کس کس کے ہاتھ نہیں بکے ، ہم بھول ہی گئے ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب بھی اکیلا ہی منزل کی جانب چلا ، پھر قافلہ بنتا گیا اور آخر کار حکومت اربوں روپے ان کی جھولی میں ڈالنے پر مجبور ہوگئی ۔آج وہ شجرسایہ دار بن چکا ہے ۔ افضل شریف نے جسم کو ڈھیلا چھوڑتے ہوئے اثبات میں سرہلایا ۔ گاڑی بریڈ فورڈ پہنچ چکی ہے ۔ ہم الوداعی مصافحہ کررہے ہیں لیکن ایک طمانیت دونوں کے دل میں اور چہرے پر ہے ۔جانتے ہیں ، ہمارے حصے کی کوشش کو پھل پھول لگانا خالق کے ہاتھ میں ہے ، ہوسکتا ہے میں ، نہیں تو کوئی اور ، شاید آپ ہی ان کے ہم رکاب ہوں ، کیونکہ افضل شریف اپنے حصے کی کوشش کرنے کے لیے سب کچھ تیاگنے پر تیار ہیں
Facebook Comments