بریکنگ نیوزلائبریری
پاکستان میں موجود700سال پرانا درخت
سرگودھا(انس چودھری سے) وطن عزیز جہاں بے شمار قدرتی وسائل سے مالا مال ہے وہیں خوبصورتی اور تاریخ میں بھی کئی اقوام سے آگے ہے،ایسی ہی ایک تاریخ لاہور سے 180 کلومیٹر دو سرگودھا کے گاؤں موری وال میں بھی رقم ہے جہاں پورے گاؤں پر سایہ کیے کھڑا برگد کا درخت گزرے سات سو سال کا چشم دید گواہ ہے۔۔ یہ درخت ساڑھے تین ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط ہے اور بلندی سے پورے گاؤں میں نمایاں اور پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق برگد کے اس خاص درخت کی عمر سینکڑوں سال سے زائد ہے جسے کئی سو سال پہلے ایک صوفی بزرگ مرتضیٰ شاہ نے اپنے شاگرد ملنگ بابا روڈھے شاہ کے ساتھ لگایا تھا۔ مرتے وقت بزرگ نے وصیت میں درخت کو روڈھے شاہ کے نام سے بڑھانے کی تلقین کی تھی۔ تب سے اب تک اسے ‘روڈھے شاہ کی مائی بوڑھ’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔برگد کے علاقے میں قدم رکھتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا آپ کسی عجیب و غریب دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔
برگد کے اس خاص درخت کو منفرد بنانے والی اس کی جڑیں ہیں، جو درخت کی بالائی شاخوں سے پھوٹتی ہیں اور لٹکتی ہوئی برگد کے نچلے حصے کی جانب زمین کو جاتی ہیں۔ زمین سے ملتے ہی یہ جڑیں تناور تنوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، اور جا بجا پھیل کر درخت کو عجیب اور منفرد ساخت دیتی ہے۔تین ایکڑ پر پھیلے اس درخت کی نچلی زمین مختلف علاقوں میں تقسیم ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ ایک حصے میں مقامی لوگوں نے چارپائیاں ڈال رکھی ہیں۔ لوگ گرم دوپہروں میں درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر آرام کرتے ہیں۔دوسرے حصے میں قبرستان ہے جس میں مرتضیٰ شاہ اور روڈے شاہ کا مزار ہے۔ مزار کے ساتھ بہت سی دوسری قبریں بھی ہیں جو ان دونوں بزرگوں کے خاندان کے افراد ہیں جو پشت در پشت اس مزار اور درخت کے متولی رہے ہیں۔ایک حصے میں درخت کے بوسیدہ تنوں کے ساتھ آس پاس کے گھروں نے اپنے گائے، بھینسیں اور گھوڑے باندھ رکھے ہیں۔
بہت سے دوسرے گھروں تک اس برگد کی شاخیں اور جڑیں پہنچ چکی ہیں، لیکن وہاں کے مکین ان شاخوں اور درختوں کو کاٹنے سے گریزاں ہیں۔درخت کی گھنے پتوں میں بھانت بھانت کے پرندوں نے گھونسلے بنا رکھے ہیں، جن کی آوازیں درخت کی سحرناکی میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ قدیم درخت کے تنوں کی چھال پر شوقین مزاج نوجوانوں نے ہزاروں کی تعداد میں نام کندہ کروا رکھے ہیں۔گاؤں کے بزرگوں کے مطابق وہ اور ان کے خاندان کئی نسلوں سے یہاں آباد ہیں اور انھوں نے اس درخت کو اسی حالت میں دیکھا ہے۔تاہم قدامت پسند معاشرے میں رہنے کے باعث مقامی لوگوں نے دربار کے بزرگ اور قدیمی برگد سے متعلق بہت سے توہمات پال رکھی ہیں، جن کے باعث نہ تو وہ اسے کاٹتے ہیں اور اور نہ ہی کوئی اس درخت پر چڑھتا ہے۔ دربار اور درخت کے متولی کے سوائے، کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
‘گاؤں والوں کے مطابق جب بھی کسی نے اس درخت کی کوئی شاخ کاٹی ہے، اسے سخت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ کسی کی کمر ٹوٹ جاتی ہے کوئی مر جاتا ہے، درخت کے فقیر کی بددعا اسے لگ جاتی ہے۔ دور دور تک درخت جس طرف بھی بڑھتا جارہا ہے، لوگ وہ علاقہ چھوڑ دیتے ہیں، لیکن کوئی اسے کاٹتا نہیں۔