بلاگلائبریری

دل دریا، سمندروں ڈونگے!(پہلی قسط)

شہرہ آفاق تصنیف"پارلیمنٹ سے بازار حسن تک " کے مصنف ظہیر احمد بابر کا خصوصی کالم


”جی چاہتا ہے،سارا کاروبارٹیم کے حوالے کروں اور اپنے مشن کی تکمیل میں دن رات ایک کردوں ۔ ز ندگی ریت کی طرح بند مٹھی سے سرکتی جارہی ہے۔“
ہماری گاڑی مانچسٹر سے منسلک آبادی راچڈیل سے بریڈ فورڈ کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ باہر چمکیلی دھوپ ہرشے کواس کے اصل رنگ میں دکھا رہی ہے۔ کھلی سڑک کے اطراف میں ہریالے میدان ہیں،اونچی نیچی پہاڑیاں اور بیچوں بیچ کھائیاں بھی۔ جابجا پانی سے لبالب بھری چھوٹی بڑی جھیلیں نظر آرہی ہیں۔ مصور کے شاہکار فن پارے جیسے یہ رنگ سٹون ایج ریزوائر ہیں جن سے مانچسٹر سمیت کئی علاقوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔راچڈیل میں رہنے والوں کا کہنا ہے وہ خوش قسمت ہیں،پانی کے ان ذخائر کی بدولت انہیں گھر بیٹھے منرل واٹرپینے کو مل جاتا ہے۔ میرے تایا زاد بھائی افضل شریف گاڑی چلارہے ہیں اور ساتھ ہی اپنے اندر جاری کشمکش کا ذکر بھی کررہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تارکول بھری سڑک پر تیزی سے دوڑتی گاڑی جیسے جیسے بریڈ فورڈ کی جانب بڑھ رہی ہے ہمارے پاس بات کرنے کے لیے وقت کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ شاید اسی لیے وہ جلدی سے دل کی بات زبان پرلے آئے۔میں نے خاموشی کے ایک لمحے میں ان کی بات سنی۔ باہر کے خوبصورت مناظر سے نظر ہٹا کر ساتھ کی سیٹ پر بیٹھے اپنے بڑے بھائی کے چہرے پہ ڈالی۔ جہاں پھیلی سنجیدگی اور تناؤ کی آمیزش بتارہی ہے، روح اور جسم کی جنگ آخری مرحلے میں داخل ہوچکی۔
افضل شریف مجھ سے دوتین سال بڑے ہیں۔ لاہور میں ہم کلمہ چوک پرانانام گول چکر کے ساتھ ہی رہائش پذیر رہے بعد میں خاندان لنک روڈ ماڈل ٹاؤن منتقل ہوگیا جبکہ تایا ابو حاجی محمد شریف کے گھر نیوگارڈن ٹاؤن میں ڈاکٹر اسرار احمد کے قرآن کالج کے پاس ہے۔ افضل شریف بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ کزن ہونے کے باوجود ہم میں دوستی کا عنصر کبھی پروان نہیں چڑھا البتہ بڑے بھائی والا احترام غالب رہا۔تہواروں اور شادی بیاہ کے ملاقاتوں کے علاوہ کم ہی ہوگا کبھی ہم مل بیٹھے ہوں، 1997ء میں وہ مانچسٹر چلے گئے اور پھر سالہا سال بعد کبھی لاہور آتے تو رسمی ملاقات ہوجاتی۔ گزشتہ رات راچڈیل میں جب رات بھر یادوں کی بارات امڈ آئی تو لگا آج دو بھائی پہلی بار کھل کر بیٹھے ہیں۔ شاید پردیس میں دوریاں ایسی ہی ختم ہوتی ہیں۔
موٹیویشنل سپیکرز اکثر سیمینارز اور تربیتی ورکشاپوں میں کامیابی کی داستانیں سناتے ہیں۔ میرے لیے پہلی موٹیویشنل مثال افضل شریف بنے۔ انہوں نے بی کام کرلیا تھا اور میں ابھی آئی کام کررہا تھا ۔ گھروالوں نے کہا، جاکر اپنے بھائی سے پڑھ آیا کرو، آگے سےرضامندی ملی تو اگلے ہی روز میں ان کے پاس پڑھنے جانے لگا۔ ہفتہ گزرا اور میں ایک دن نہ گیا، دوسرے دن پھر ڈنڈی ماری اور تاخیر سے پہنچا۔ کمرے میں جاتے ہی دیرسے آنے پر معذرت کی۔ جواب میں افضل شریف بولے۔ آپ جب بھی دیر سے آؤں گے تو مجھے خوشی ہوگی کیونکہ یہ میرے پڑھنے کا وقت بھی یہی ہے۔ اس لیے چھٹی کرو یا تاخیر سے آؤ، میرا فائدہ اور اپنا ہی نقصان کروگے۔ میں تھوڑا بہت سمجھتے ہوئے کتابیں کھول کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے ایک بھاری بھرکم ڈکشنری دکھاتے ہوئے اپنی کہانی سنانا شروع کی۔
”سکول میں باربار فیل ہوا تو ابو جی نے تنگ آکر مجھے بڑے بھائی کی درزی کی دکان پر جا بٹھایاگویا میری تعلیمی میدان میں ناکامی پر مہرثبت کردی گئی۔ میں کئی ماہ دکان پر صبح جاتا اور شام تک کام سیکھنے کی کوشش کرتا۔ آہستہ آہستہ مجھے سلائی کا کام آنے لگا۔اس دوران جیب خرچ بھی مل جاتا۔ عام آدمی کے حساب سے دیکھا جائے تو زندگی نے ایک ڈگر پکڑ لی تھی، میرا سٹیٹس انڈر میٹرک درزی بن گیا ، اب بظاہر اپنی دکان کھولنا ہی میری منزل تھی لیکن درحقیقت یہ میری منزل نہیں تھی۔ تعلیمی میدان میں ناکامی مجھے اندر سے کچوکے دیے رکھتی۔ آخرکار میں نے کسی کو بتائے بغیر میٹرک کی کتابیں جمع کیں اور دوبارہ سے امتحانات کی تیاری شروع کردی۔ کتابوں سے دوبارہ جڑنا جتنا اچھالگا اتنا ہی کٹھن بھی تھا۔ صبح سے شام تک دکان پر کام اور پھر اپنے طور پڑھائی اتنا آسان نہیں تھا جتنا سوچا تھا لیکن ناکام کہلانا بھی مجھے قبول نہیں تھا۔ انگریزی کا مضمون چھوڑ کر باقی پرچے دیے۔ رزلٹ آیا تو سب مضامین میں کامیابی نے حوصلہ بڑھا دیا۔ ابھی تک گھر میں کوئی نہیں جانتا تھا میں نے تعلیم سے دوبارہ ناطہ جوڑ لیا ہے۔ اب انگریزی کے دو پرچے بڑی رکاوٹ تھے۔اپنے طور پر خوب تیاری کی اور ضمنی امتحانات میں بیٹھ کر یہ بھاری پتھر بھی اٹھاہی لیا۔ تین بار فیل ہونے کے بعد آخرکار نتیجہ آیا تو افضل شریف میٹرک پاس کرچکا تھا۔
ابو جی!کو ابھی بھی بتانے کی ہمت نہ پڑھی۔ بہن بھائیوں کو بتادیامیں نے کامیابی کے راستے پر سفر شروع کردیا ہے۔ایک پرائیویٹ کالج میں جاکر آئی کام میں داخلہ لے لیا۔ وہاں کے پرنسپل امتیاز بٹ صاحب کا اپنا طریقہ کار تھا۔ ان کے سکول اور کالج میں طلبا کو کلاس ٹیسٹ میں ملنے والے نمبرز کی بنیاد پر رول نمبر دیا جاتا تھا یعنی طالب علم کلاس اور رول نمبر بتاتا تو اساتذہ کو علم ہوجاتا یہ کتنے پانی میں ہے۔ کچھ ماہ گزرے تو پرنسپل صاحب کی جانب سے پیغام ملااپنے والد کو کل ساتھ لے کر آنا۔ میرے تو پاؤں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔ کیسے بتاؤں گا انہیں؟ کیا سوچیں گے وہ؟انہی خیالوں میں گم جیسے تیسے گھر پہنچا اور ابا حضور کی عدالت میں پیش ہوگیا۔میرے میٹرک پاس کرنے کی اطلاع انہیں ادھر ادھر سے مل چکی تھی۔ میں نے جھجکتے ہوئے انہیں بتایا، آپ کو پرنسپل صاحب نے کل بلایا ہے۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ان کا چہرہ سرخ ہوگیا اور غصے سے بولے۔ تم ہرجگہ مجھے شرمندہ کراؤں گے۔ مجھے وہاں جاکر اپنی بے عزتی کرانے کاکوئی شوق نہیں۔ چٹا سا جواب سن کر میرے اوسان خطا ہوگئے۔ ایک طرف ابو جی تھے اور دوسری طرف پرنسپل صاحب۔ میرے منت ترلا کرنے پر آخرکار ابوجی جانے پر راضی ہوئے تو جان میں جان آئی لیکن ساتھ ہی حکم صادر ہوا اگر وہاں پرنسپل صاحب نے تمہاری کسی نالائقی کا ذکر کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔
اگلی صبح کا سورج طلوع ہوا تو ابو جی کے ساتھ ڈرا سہما پرنسپل صاحب کے دفتر جا پہنچا۔ امتیاز بٹ صاحب نے مجھے دیکھا، ابو جی سے ہاتھ ملایا۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتے، ابوجی نے حفظ ماتقدم کے طور پہلے ہی کہہ دیا۔ میں نے تو جی اس کی نالائقی کی وجہ سے پہلے ہی اسے درزی کے کام پر لگا دیا تھا۔ پرنسپل صاحب نے میری کلاس اور رول نمبر پوچھا۔ میں نے بتایا، آئی کام فرسٹ ایئر، رول نمبر ایک۔ پرنسپل صاحب مسکرائے اور ابو جی کو مبارکباد دی کہ آپ کا بیٹا بہت لائق ہے اور کلاس میں لیے گئے تمام ٹیسٹوں میں فرسٹ آرہا ہے۔ میری جان میں جان آئی اور ابوجی کے چہرے پر غیر یقینی سی مسکراہٹ ۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ہم دفتر سے باہر آئے تو ابو جی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو جھلملا رہے تھے۔انہوں نے مجھے گلے لگایا اور پوچھا، بیٹا!بولو کیا انعام دوں؟یہ وہ لمحہ تھا جب افضل شریف اپنے ابوجی کی نظروں میں بھی ناکام نہیں رہا تھا۔ میں نے اپنی خوشی کو سنبھالتے ہوئے کہا۔ مجھے انگریزی کے مضمون میں مشکل پیش آرہی ہے، ڈکشنری مہنگی ملتی ہے، مجھے وہ لے دیں۔کمرے میں خاموشی چھا گئی اور میرے تایازاد نے میز پر رکھی ڈکشنری اٹھاتے ہوئے کہا، ظہیر!یہ وہ ڈکشنری ہے، جو مجھے بتاتی ہے، ناکامی کا سفر کامیابی میں کیسے بدلا جاسکتا ہے؟
میری زندگی کی اس زندہ موٹیویشنل سٹوری کے مرکزی کردارنے بعد میں پنجاب یونیورسٹی کے ہیلی کالج سے بی کام کیا۔گریجویشن کرنے کے بعد کچھ عرصہ فیصل ٹاؤن کی انٹرنیشنل مارکیٹ میں ”دی سٹیچ ماسٹر“ کے نام دکان کھولی۔ سیاستدانوں اور بیورکریٹس سمیت کئی خوش لباس شخصیات ان کی مستقل گاہک بنیں اور آخرکار ایک دن وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مانچسٹر چلے گئے۔ جہاں میٹرک کے امتحانات کے دوران تین بار انگریزی کے مضمون میں فیل ہونے والا انگلش زبان کی ترجمانی میں اتھارٹی بن گیا ۔اس کا کیا ترجمہ برطانیہ کی عدالتوں ، پولیس اور ہرسرکاری و غیر سرکاری محکمے میں درستی کی مثال بن گیا۔ افضل شریف کےقدم یہاں بھی نہ رکے ، فیشن ڈیزائننگ میں تعلیم حاصل کی اور اپنا کاروبار شروع کردیا ۔ آج برسوں بعد جب وہ آن لائن بزنس چلارہے ہیں۔گارمنٹس میں ان کے اپنے دوتین برانڈ مقبول ہیں۔خاندان بھر کے لیے وہ محنت اور کامیابی کی ایک مثال بنے ہوئے ہیں ، اب انہوں نے اچانک بم پھوڑ دیا۔”جی چاہتا ہے،سارا کاروبارٹیم کے حوالے کروں اور اپنے مشن کی تکمیل میں دن رات ایک کردوں ۔ ز ندگی ریت کی طرح بند مٹھی سے سرکتی جارہی ہے۔“آخر یہ کون سا مشن ہے، جس کے لیے افضل شریف اپنے برسوں کے بنائے کاروبار کو تیاگنے پر تل گیا ہے؟میری بے چینی بڑھنے لگی ۔ (جاری ہے)

Facebook Comments
Show More

Related Articles

اسے بھی پڑھیں

Close
Close