بریکنگ نیوز

کیا زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی ممکن ہے؟

لاہور(نیوزروم رپورٹ)قصور میں معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی کے بعد انہیں موت کے گھاٹ اتارنے والے سفاک ملزم کی گرفتاری کے بعد کراچی سے کشمیر تک ایک ہی مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ درندے کو سرعام پھانسی دی جائے،وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ان کا کہناتھا کہ اگر ان کا بس چلے تو درندے کو چوک پر لٹکا دیں۔افسوسناک ترین واقعہ پر شاید یہ سزا بھی کم ہوگی لیکن کیا ایسا کرنا ممکن ہے؟قانونی ماہرین کے مطابق  قوانین دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک ضابطہ فوجداری میں دئیے ہوئے ہیں، دوسرے اعلیٰ عدالتوں کے ہوتے ہیں۔ جہاں تک ضابطہ فوجداری کا تعلق ہے تو اس میں اس پر کوئی پابندی نہیں کہ مجرم کو سزائے موت کس جگہ پر دی جائے، اب عدالتوں کو دیکھنا ہے کہ وہ اس معاملے پر کیا کہتی ہیں۔ضیا الحق کے زمانے میں سنگین غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث مجرموں کو پکڑ کر چوراہوں اور جیل کے باہر سرعام پھانسیاں شروع کر دی گئیں اس پر سپریم کورٹ نے ایکشن لیا، سرعام اور چوراہوں پر پھانسی دینے پر پابندی لگا دی۔ اس حکم کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب کسی شخص کو سزائے موت دے دی جائے اور اس کی موت کی ڈاکٹر تصدیق کر دے تو اسی وقت اس کو پھانسی کے پھندے سے اتار لیا جاتا ہے، لیکن یہاں پر یہ ہوتا تھا کہ ایک شخص کو سرعام سزائے موت دینے کے بعد گھنٹوں تک اس کی لاش لٹکتی رہتی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جب مجرم کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اس کے بعد لاش کو گھنٹوں لٹکائے رکھنے سے لاش کی بے حرمتی ہوتی ہے۔اس عدالتی فیصلے کی روشنی میں سرعام پھانسی نہیں دی جا سکتی اور ایسا کرنا ایک غیر قانونی عمل ہو گا۔ اس پر کو ئی نظر ثانی بھی نہیں ہو سکتی۔سرعام پھانسی دینے کیلئے جو جواز بنایا جا رہا ہے کہ اس سے لوگوں کو عبرت ہو گی تو جس شخص کی زندگی لے لی جائے، اس سے بڑی عبرت لوگوں کے لئے اور کیا ہو سکتی ہے اگر جہاں تک قانون میں ترمیم کی بات ہے تو یہ بھی وفاقی حکومت کا اختیار ہے صوبائی حکومت اس پر کچھ نہیں کر سکتی لہذا قانونی طور پر کسی طور بھی کسی مجرم کو سرعام پھانسی نہیں دی جاسکتی۔

 

Facebook Comments
Show More

Related Articles

Close